جمہوریت وہ طرز حکومت ہے کہ جس میں ۔
بندوں کو گنا کرتے ہیں ، تولا نہیں کرتے ۔
غالبأ یہ وہ واحد شعر ہے کہ جس میں مغربی طرز جمہوریت اور اسلامی شورائی نظام کے مابین فرق کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ مغربی جمہوریت ، خواہ وہ پارلیمانی نظام ہو یا صدارتی نظام ، بالغ رائے دہی میں ہر رائے دہندہ کو صرف ایک ووٹ ڈالنے کی اجازت دیتا ہے جس کی بدولت ایک عالم اور ایک جاہل کی رائے برابر شمار ہو جاتی ہے ۔یہ پوری انسانی تاریخ کی اجتماعی اخلاقیات کی وہ واحد مساوات ہے کہ جس کو تضاد کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔ اس تضاد کو مساوات میں کیسے بدلہ جائے ؟ آج تک نہ تو اس بارے میں کوئی شعوری کوشش کی گئی ہے اور نہ ہی اس موضوع پر کوئی مباحثہ ہی ترتیب دیا گیا ہے ۔ آئیں آج ایک تجویز ہی زیر بحث لانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
اس تضاد کو موجودہ نظام تعلیم کی مدد سے سے بھی کسی حد تک دور کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے ۔
ہمارے معاشرے میں اس وقت ناخواندہ یا انڈر میٹرک ، ایف اے ، بی اے ، ایم اے اور اس سے زائد اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈگری ہولڈرز کی شکل میں مختلف گروہ موجود ہیں اور ان کا نام ملازمت کے حصول کیلئے بھی اسی ترتیب سے میرٹ لسٹوں میں درج کیا جاتا ہے ۔ مذہبی تعلیمی ڈگریوں اور مختلف ہنر سیکھنے والوں کی پروفیشنل تعلیمی ڈگریوں کا بھی اسی نظام تعلیم سے موازنہ کرکے ان کی درجہ بندی کی جاتی ہے ۔
کیوں نہ ہر رائے دہندہ کو اس کی تعلیمی استطاعت کے مطابق ایک سے زائد ووٹ ڈالنے کی اجازت دی جائے ۔ ناخواندہ یا انڈر میٹرک کو حسب معمول ایک ، ایف اے پاس کو دو ، بی اے پاس کو تین ، ایم اے اور اس سے زائد اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈگری ہولڈرز کو بیک وقت چار ووٹ ڈالنے کی اجازت دی جاسکتی ہے ۔ اس سارے معاملے میں پورے ملک کے تعلیمی بورڈز ، نادرا اور الیکشن کمیشن کو مربوط کرکے ایک خاص سسٹم بنایا جاسکتا ہے ۔
اس طرح کی کسی کوشش سے بہت سے مقاصد بیک وقت حاصل کیۓ جاسکتے ہیں ۔ اس سے ملک میں شرح خواندگی میں اضافہ اور انتہائی قابل نمائندوں کا انتخاب تو ضرور عمل میں آئے گا جو ہر صورت پاکستان کے بہترین مفاد میں ہوگا ۔
اگر ہم اس طرح کی کسی کوشش کو فضول سمجھتے ہیں تو پھر ہمیں ان کسان بوڑھوں کے طرزعمل پر رشک کرنا چاہئے کہ وہ محض اس وجہ سے مطمئن زندگی گزار رہے ہیں کہ وہ صاحب اولاد ہیں اور ان کے بیٹے ان کے بڑھاپے کا سہارا بنیں گے اور ان کے کفن دفن کا انتظام بحسن و خوبی ہوجائے گا ۔
Comments
Post a Comment